دنیا میں آنے کا مقصد
ضبط و ترتیب:مفتی شبیر احمد حنفی
مرکز
اہل السنۃ والجماعۃ میں ہر انگریزی ماہ کی پہلی جمعرات بعد نماز مغرب مجلس
ذکر ہوتی ہے۔پیر طریقت ،متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب
دامت فیوضہم وعظ فرماتے ہیں، جس میں حضرت الشیخ زید مجدہ کے مریدین
ومتعلقین کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔یکم مارچ 2012ء کو کیے گئےوعظ کا
خلاصہ افادہ عام کی غرض سے پیش کیا جارہا ہے
الحمد
للہ وحدہ و الصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ اما بعد! فاعوذ باللہ من
الشیطن الرجیم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لَقَدْ خَلَقْنَا
الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ
(البلد:4)
اللہ
رب العزت نے دنیا میں ہمیں کھانے لیے نہیں بھیجابلکہ کمانے کے لیے بھیجا
ہے۔دنیا کمانےکی جگہ ہے اور جنت کھانے کی جگہ ہے۔دنیا مشقت کی جگہ ہے اور
آخرت آرام کی جگہ ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی وہ شخصیت
ہیں جن کے صدقے اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو وجود دیا ہے۔غزوہ خندق کے
موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ
خندق کھود رہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان سے یہ جملے ارشاد
فرمارہے تھے:اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ۔۔۔ فَاغْفِرْ
لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ
(صحیح البخاری رقم الحدیث 6414)
اے
اللہ! میرے انصارومہاجرین کی مغفرت فرما،اور ساتھ یہ تسلی بھی دے رہےتھے
کہ عیش کی زندگی تو آخرت کی ہے نہ کہ دنیا کی۔جب یہ بات آدمی کے ذہن میں
بیٹھ جائے تو آدمی کے لیے شریعت پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔دیکھیں ایک کالج کا
لڑکا ہےجو کہ بالکل نہیں پڑھتا ،مگر بعض اوقات وہ رات دو دوبجے تک جاگ کر
پڑھتا ہے۔ کہتا ہے کہ کل میرا امتحان ہے ۔اسے پتہ ہے اب محنت کروں گا تو
پاس ہوں گا۔پاس ہوں گا تو نوکری ملے گی۔تواس کو نوکری کا علم ہے اس لیے رات
کو جاگتا ہے۔ ہمیں رات کے جاگنے پر کیا ملے گا؟ اس کا علم نہیں ہے۔دنیا کے
لوگوں کو علم ہے کہ محنت کریں گے تو کچھ حاصل ہوگا مگر ہم کو علم نہیں کہ
ہم محنت کریں گے تو ہماری آخرت بنے گی۔مجھے آج ایک ساتھی مذاق میں کہنے لگا
کہ حضرت آج بڑی سپیڈ لگی ہوئی ہے۔ میں نے کہا جب وقت تھوڑا ہو اور کام
زیادہ ہو تو سپیڈ تو لگتی ہی ہے ۔ ہماری زندگی بہت تھوڑی ہے اور ایک بارملی
ہے باربار نہیں ملتی۔تو اس میں جتنی محنت ہوسکتی ہے کریں، کیونکہ ہمارا
تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ساتھ ہےاور حضورصلی
اللہ علیہ وسلم کسی ایک علاقے کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے تشریف
لائے ہیں۔
اب
ہم پوری دنیا میں شاید نہ جاسکیں لیکن پوری دنیا سامنے تو رکھنی
چاہیے،کیونکہ جتنا ہمارا جذبہ ہوگا اور محنت ہوگی اسی کی نسبت اللہ تبارک
وتعالی کی مدد اترے گی۔تو میں گزارش کررہا ہوں کہ ہم دنیا میں کام کے لیے
آئے ہیں ۔کام ہی ہمارا مزاج بن جائے ۔ آپ کسی طالب علم سے پوچھتے ہیں کلاس
میں کیوں نہیں آئے ؟وہ کہتا ہے مجھے نزلہ ہے،کوئی کہتا ہے میرے سر میں درد
ہے اور اگر مزدور کو نزلہ یا سر کا درد ہو تو وہ کام پر آتا ہے کیونکہ وہ
سمجھتا ہے کہ میں جاؤں گا، کام کروں گا تو کچھ ملے گا۔تو وہ کام کرتا ہے
اور ہم کام میں سستی کرتے ہیں ۔ یاد رکھیں یہ کام دنیا میں چل جاتاہے مگر
آخرت میں یہ معاملہ نہیں چلتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى
( النجم:39)
جو کیا ہوگا وہی ملنا ہے،وہی آگے جاکر وصول ہوگا۔
میں
یہ گزارش اس لیے کرتا ہوں کہ آج ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ گناہوں سے بچنا
بہت مشکل ہے ۔حالانکہ گناہ سے بچنا بہت آسان ہے۔اللہ تعالیٰ مشکل احکام
بندے کو دیتے ہی نہیں، اللہ وہی حکم دیتے ہیں جو بندے کے بس میں ہو۔
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا
(البقرۃ:286)
حکیم
الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر آدمی زنا
کرنے لیے عورت پر بیٹھ چکا ہو تو اس وقت بھی حکم ہے کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔اگر
کسی بندے کے بس میں نہ ہوتا تو اللہ حکم ہی نہ دیتے ۔ معلوم ہوا کہ ایسی
حالت میں بھی بچنا بندہ کے اختیار میں ہے۔ جب اللہ دل میں آجاتاہے تو بندہ
گناہ سے بچنے کے راستے تلاش کرتا ہے۔انسان کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے
گناہوں سے بچا ہی دیتے ہیں۔ آپ محنت کرکے تو دیکھیں، اللہ یوں نوازتا ہے کہ
بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ گناہوں سےبچنے کا ارادہ کریں خدا کی قسم اللہ
گناہوں بچنے کے اسباب دے گا۔ اللہ رب العزت بہت کریم ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ
بندہ کو محروم نہیں کرتے بس کبھی ہماری محنت صحیح نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ
(البلد:4)
ہم
نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا۔ کبھی لوگ کہتے ہیں کہ مدرسہ ہے اسباب نہیں
،میں نوکری کرتا ہوں گزارہ نہیں چلتا۔ تومیں کہتا ہوں کیوں نہیں چلتا؟ آپ
تھوڑا اخراجات کنٹرول تو کریں ۔دنیا توکمانے کی جگہ ہے کھانے کی جگہ تھوڑا
ہی ہے۔حرام کھانے کو چھوڑیں اور حلال کی چٹنی کھائیں، حرام کے مرغ چھوڑیں
حلال کی دال کھائیں۔اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو روزہ رکھیں، مگر طے کریں کہ
میں نے گناہ نہیں کرنا۔کچھ عرصہ لگے گا اللہ تعالی پھر وسعت کے ساتھ دروازے
کھول دیں گے۔بندہ ہمت کرے تو اللہ اتنے اسباب عطاء فرماتے ہیں کہ بندہ سوچ
بھی نہیں سکتا۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ
(البلد:4)
ہم
نے بندے کو مشقت میں پیدا کیا۔ ہم چاہتے ہیں کام کریں تکلیف نہ ہو،مصیبت
نہ آئےاور مال ہی مال ہو۔ ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ محنت نہ کریں لیکن
پیسہ ہی پیسہ ہو۔ فرمایا نہیں خدا نے مشقت میں پیداکیا ہے ، تکلیفیں تو آنی
ہیں۔ ہاں کبھی اگر راحت مل جائے تو اس پر توبندہ کو غور کرنا چاہیے لیکن
مشقت ملے تو یہ مزاج دنیا ہے اس میں کیا تعجب کرنے کی ضرورت ہے،مشقت میں
آدمی کو پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگنی چاہیے۔
میں
ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک مزدور روزانہ 8 گھنٹے کام کرے، مشقت کرے،اینٹیں
اٹھائے تو بتائیں اسے پسینہ آناچاہیے کہ نہیں ؟ [سامعین: آنا چاہیے]تو جو
مزدور کہے میں نے8گھنٹے مزدوری کی ہے اور مجھے پسینہ نہیں آیا، تو مولانا
کہیں گے : نئیں پتر تو کسی حکیم نوں چیک کرا [نہیں بیٹے آپ کسی حکیم کو چیک
کرائیں] پسینہ نہ آئے یہ عیب ہے،خوبی نہیں ہے۔یہ باتیں اس لیے کہہ رہا ہوں
کہ ایک مولانا جو بہت جسیم تھے فرمانے لگے: اللہ کا شکر ہے 10سال سے
کوئی بیماری نہیں آئی۔ میں نے کہا آپ کسی خانقاہ سے رابطہ کریں۔کہیں آپ
گناہ میں ملوث تو نہیں ہیں،کہ اللہ نے ڈھیل دے رکھی ہے۔ جب آدمی بیمار ہی
نہ ہو تو جری ہوکر گناہ کرتاہے اور تھوڑی سی بیماری آجائے تو سارے پچھلے
گناہ یاد آجاتے ہیں اور ایک ایک کو یاد کرکے معافی مانگتا ہے اور جب آدمی
کسی نیکی کا واسطہ دیتا ہے تو اللہ تعالی آسانی فرماتے ہیں۔
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا
)جو
شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے آسانی فرما دیتے ہیں(دنیا میں مشقت
ہویہ عیب نہیں، دنیا مشقت نہ ہو یہ عیب ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا :
أَشَدُّ الناس بَلاَءً الأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ
(مسند البزار ج 3ص349 رقم الحدیث1150)
فرمایا
کہ دنیا میں سب سے زیادہ تکالیف انبیاء پر آتی ہیں پھرجو ان کے قریب ہیں
ان پر۔امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری حسرت ہوتی تھی کہ جب
مروں تو مرتے وقت تکلیف نہ ہولیکن جب میں نبی علیہ السلام کی تکلیف دیکھی
ہے تو یہ تمنا چھوڑ دی ہے۔ حضور علیہ السلام کی تکلیف کیسی تھی؟روایات میں
آتا ہے کہ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف بڑھی تو دو آدمیوں کے
کندھوں کے سہارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد تشریف لاتے تھے، اور ایک وقت
ایسا بھی آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ اٹھا کر دیکھتے کہ جو جماعت
میں نے تیار کی ہے وہ نماز پڑھ رہی ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
تیار کردہ جماعت نماز پڑھتی ہو گی تو آپ علیہ السلام کا دل کتنا ٹھنڈا ہوتا
ہو گا کہ جو فوج میں نے تیار کی ہے اس کا رزلٹ اللہ مجھے دنیا میں اپنی
آنکھوں سے دکھا رہا ہے۔
اس
پر میں ایک بات سناتا ہوں ۔مجھے ایک ساتھی کہنے لگا کہ یہ جو ہمارا عقیدہ
ہے کہ اگرہم یہاں سے صلوۃ وسلام پڑھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں فرشتے پہنچا دیتے ہیں اور جب روضہ مبارک کے پاس پڑھیں تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں۔ کہنے لگا کہ میرا ایک سوال ہے کہ حدیبیہ کے
موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ میں مذاکرات کرنے کے لیے گئے تھےاور
حضور صلی اللہ علیہ وسلم مقام حدیبیہ میں تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو
مشرکین نے وہاں گرفتار کرلیا،اور مشہور ہوگیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
شہید ہوگئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو کہا بیعت کرو ، ہم
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ خون سےلیں گے۔ تو جب نبی کا خون
گرتا ہے توانتقام خدا لیتا ہےجب صحابی کا خون گرتا ہے انتقام نبی لیتا
ہے،کیونکہ نبی نمائندہ خدا کا ہے اور صحابی نمائندہ مصطفی کا ہے۔تو وہ
ساتھی کہنے لگے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید تونہیں ہوئے تھے،نماز بھی
پڑھتے ہوں گے؟ میں نے کہا :ہاں۔ کہنے لگے درود بھی پڑھتے ہوں گے؟ میں نے
کہا: ہاں ۔کیا نبی علیہ السلام پر بھی وہ درود پیش ہوتا تھا ؟میں نے کہا
نہیں۔جب نبی علیہ السلام اس دنیا میں زندہ تھے صلاۃوسلام اور امت کے اعمال
کے پیش ہونے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اس لیے کہ اگر میں مدرسہ میں موجود ہوں تو
میں دیکھ رہا ہوں کہ طالبعلم پڑھ رہے ہیں ،کام کررہے ہیں، اب یہاں پر مجھے
بتانے کی ضرورت نہیں۔ہاں اگرمیں بیرون ملک چلاجاؤں تو میں پوچھوں گا کتنے
طلبہ ہیں؟ کیسا پڑھتے ہیں ؟وغیرہ وغیرہ۔تو جب نبی علیہ السلام اس دنیا میں
تھے تو امت کے اعمال کا مشاہدہ کررہے تھے، عرض اعمال کی ضرورت نہ تھی اور
جب نبی علیہ السلام دنیا چھوڑ گئے تو اب عرض اعمال کی ضرورت ہے ۔
تو
میں بات کہہ رہا تھا لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ کہ دنیا
میں مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ انسان گناہ نہ کرے اس کے لیے بھی مشقت اٹھانی
پڑتی ہے۔بعض ساتھی کہتے ہیں دعا کریں کہ گناہ کو دل ہی نہ کرے ۔میں کہتا
ہوں کہ یہ دعا نہ کرو،یہ دعا کرو گے تو پھر کمال کون سا ہے؟؟ جون کا مہینہ
ہو روزہ رکھوپیاس نہ لگے یہ کمال کون سا ہے ؟کمال تو یہ ہے کہ مہینہ گرمی
کا ہے، پیاس شدت سے لگتی ہے ،ٹھنڈے پانی سے غسل کرتے ہیں، پانی منہ کے اندر
نہیں جانے دیتے کیونکہ اللہ دیکھ رہا ہے یہ کمال ہے،اور جب پیاس ہی نہ لگے
تو یہ کون سا کمال ہے؟گناہ کو دل کرے پھر بھی انسان گناہ نہ کرے یہ کمال
ہے ،دل ہی نہ کرے پھر گناہ نہ ہو یہ کون سا کمال ہے؟اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ
(النور:30)
مؤمنین
سے کہو کہ اپنی نظریں جھکائے رکھیں۔جب نظریں جھکائیں اور گناہ نہ کریں تو
مشقت تو ہوگی۔جس کے مزاج میں غلاظت ہو وہ گناہ کے مواقع تلاش کرتا ہے اورجس
کے مزاج میں غلاظت نہ ہو وہ گناہ نہیں کرتا۔ بس آج سےیہ طے کر لو کہ لاکھ
نقصان ہو گناہ نہیں کرنا چاہے اس کے لیے کتنی ہی مشقت اٹھانی پڑے۔اللہ
تعالی مجھے بھی اور آپ کو بھی گناہوں سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔
No comments:
Post a Comment